کیا امریکہ پر حملہ آور قاتل بھڑیں دیگر ممالک بھی پہنچ سکتی ہیں؟
مشتاق رسول
کرونا واٸرس جب چین میں پھیلا تو ہمارے ملک میں لوگوں نے اس کے لیے انواع و اقسام کے اسباب کی ریت کے ٹیلے بنائے اور پھر ان ٹیلوں میں اپنی لمبی گردنوں پر رکھے سر یہ سوچ کر چھپا لیے، کہ اب ہمیں کوئی خطرہ نہیں، لیکن کرونا بدقسمتی سے رشتے میں ہمارا فرسٹ کزن نہیں تھا، قانونِ فطرت بھی کب بدلے ہیں بھلا!
اس وبا پر ہم نے خود کو مطمئن رکھنے کے لیے دفاعی میکانیات کے نئے سے نئے اقدام بھی ایجاد کر لیے، لیکن ہوش ٹھکانے لگنے میں پھر دیر بھی نہ لگی، کہ کورونا ملکی سرحدیں پھلانگتا ادھر بھی در آیا..
ہم اگرچہ حاملینِ قرآن ہیں، خدا کی وہ کتاب، جو ہر ہر قدم پر ہماری رہنمائی کرتی ہے، لیکن صد افسوس کہ ہم نے اسے سمجھ کر رشد و ہدایت پانے کی بجائے ریشمی کپڑے کے غلاف میں لپیٹ کر اور اسے بوسہ دے کر رکھ دیا، اور اپنے تئیں سوچ لیا کہ ہر ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے
۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کسی قوم پر عذاب ڈھانے کے متعلق یہ بات بتاٸی ہے کہ ”اور آپ کا رب کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتا جب تک کسی مرکزی بستی میں رسول نہ بھیج لے جو انہیں ہماری آیات پڑھ کر سنائے ۔ ہم صرف ایسی بستی کو تباہ و ہلاک کرتے ہیں جسکے رہنے والے ظالم ہوں۔“
یہ تو بات ہوٸی کرونا کی، مگر بی بی سی رپوٹ کے مطابق ”امریکہ میں 'قاتل بھڑوں' کی آمد سے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ سن بھڑوں کا ڈنک انسانوں کو ہلاک کر سکتا ہے اور یہ بھڑیں شہد کی مکھیوں کی بھی دشمن ہیں
یقیناً کرونا کے بعد امریکا میں بھڑوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، تو کیا یہ بھڑیں دوسرے ممالک اور خدا نہ کرے ہمارے ملک تک بھی پہنچ سکتی ہیں؟ ہم، جو پہلے ہی ٹڈی دل کے پہ در پہ حملوں کی زد میں ہیں!
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں