ستاروں اور سیاروں کے مدار
تحریر: ھارون یحی'
قرآن حکیم میں سورج اور چاند کے متعلق دیکھا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے ایک مخصوص مدار یا مخصوص راستے پر محوِ حرکت ہے:
"اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو بنایا (یہ) سب (یعنی سورج چاند ستارے) آسمان میں اس طرح چلتے ہیں گویا تَیر رہے ہیں."
سورۃالانبیاء.آیت٣٣
سورۃالانبیاء.آیت٣٣
اسی طرح ایک دوسری آیت میں بھی بتایا گیا ہے کہ سورج ساکت نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص مدار میں حرکت پذیر ہے:
"اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے، یہ (خدائے) غالب اور دانا کا (مقرر کیا ہوا) اندازہ ہے"
سورۃیاسین.آیت٣٨
"اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے، یہ (خدائے) غالب اور دانا کا (مقرر کیا ہوا) اندازہ ہے"
سورۃیاسین.آیت٣٨
قرآن میں جو حقیقتیں بتائی گئی ہیں، وہ آج آ کر ہمارے دور کے جدید فلکیاتی مشاہدوں کی بدولت دریافت ہوئی ہیں. ماہرینِ فلکیات کی تحقیق سے حاصل شدہ اعدادوشمار کے مطابق سورج ایک خاص مدار (Solar Apex) میں ویگا ستارے (Star Vega) کی جانب 7لاکھ 20ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے سفر کر رہا ہے. اس کا مطلب ہے سورج ایک دن میں اندازاً 1کروڑ 72لاکھ 80ہزار میل کا سفر طے کرتا ہے. سورج کے ساتھ ساتھ اس کی کشش ثقل کے زیرِ اثر سارے سیارے اور سیارچے بھی یہ فاصلہ طے کرتے جارہے ہیں. مزید برآں کائنات میں موجود سارے ستارے اسی سے ملتی جُلتی مقررہ گردش میں ہیں، اس کا یقینی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام کائنات مداروں اور راستوں سے پُر ہے، جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:
"اور آسمان کی قسم، جس میں راستے ہیں"
سورۃالذاریات. آیت٧
"اور آسمان کی قسم، جس میں راستے ہیں"
سورۃالذاریات. آیت٧
کائنات میں تقریباً 200بلین کہکشائیں موجود ہیں، جن میں ہر ایک میں اندازاً 200بلین ستارے پائےجاتے ہیں. ان میں سے اکثر ستاروں کے اپنے سیارے اور ان میں سے اکثر سیاروں کے ذیلی سیارچے ہیں. یہ سارے خلائی اجسام نہایت نِپے تُلے مداروں یا مقررہ راستوں پر سفر کر رہے ہیں. ہزاروں لاکھوں سال سے ان اجرامِ فلکی میں سے ہر ایک دیگر تمام اجسام کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں ایک مکمل ہم آہنگی کے ساتھ تَیر رہا ہے. علاوہ ازیں کافی تعداد میں دم دار سیارے بھی اپنے مخصوص مداروں میں حرکت پذیر ہیں!
کائنات میں موجود مدار صرف خلائی اجسام ہی کے لیے مخصوص نہیں، کہکشائیں بھی انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ متعین اور مخصوص راستوں پر رواں دواں ہیں. اپنے اس سفر کے دوران ان میں سے کوئی بھی دوسرے کا طے شدہ راستہ نہیں کاٹتا، نہ دوسرے سے ٹکراتا ہے!
یقینی بات ہے کہ جب قرآن نازل ہوا، تو اس دور کے انسان کے پاس موجودہ دوربینیں نہیں تھیں اور نہ ہی ترقی یافتہ مشاہداتی ٹیکنالوجی میسر تھی، کہ وہ ان کی مدد سے لاکھوں کلومیٹر دور تک خلا Space کا مشاہدہ کر سکتے، اور نہ ہی اس کے پاس جدید طبیعیات یا فلکیات کا علم تھا. چنانچہ اس وقت سائنسی طور پر یہ جاننا ممکن نہیں تھا کہ خلا "راستوں اور مداروں" سے بھری پڑی ہے، جیسا کہ قرآن میں یہ کھول کھول کر اس وقت بتا دیا گیا تھا... کیونکہ قرآن خدا کا کلام ہے!
کائنات میں موجود دوسرے لاتعداد دمدار ستاروں کی مانند ہیلے کا دم دار ستارہ بھی اپنے مخصوص مدار میں گردش کر رہا ہے اس کا ایک مخصوص مدار ہے اور یہ اس مدار میں دوسرے خلائی اجسام کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ محوِ گردش ہے.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں