صاحب کے لیے کرونا ویکسین لاؤ... صاف چِپ.... مصالحہ مار کے....!

Reality of Corona virus



کچھ لوگ انہیں سازشی نظریات تو کچھ پسِ پردہ چھپے حقائق مانتے ہیں
میں تو  لاک ڈائون میں پھنسا ہوا ہوں،
اس لیے میں نہ تو کچھ جانتا ہوں اور نہ کچھ مانتا ہوں

تو جناب، پڑھنا ہے تو اپنے رسک پر پڑھیے، کمپنی کسی بھی بات کی ذمہ دار نہ ہوگی

بات اسی منحوس کرونا کی ہے... جو نہ اگلے بنے، نہ نگلے بنے

کرونا کے بارے میں یہ کہانی بار بار سننے کو ملتی رہی ہے  کہ امریکہ کی لیبارٹریوں میں ایک کلموہے وائرس کے ساتھ ایسی بائیو لوجیکل انجینئرنگ یعنی ایسا جگاڑ کیا گیا کہ اسے کسی مخصوص طریقہ کار کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکے۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ نظر نہ آنے والا چھوٹو بدمعاش تھا، جسے دشمن  دے پنڈ اچ  خوف اور بیماری پیدا کرنے کے لئے تیار کیا گیا۔ اس سے خوف پیدا کر کے کسی بھی علاقے کا نظام زندگی برباد کیا جا سکتا تھا۔ اور امریکہ کے لیے یہ دشمن پنڈ کوئی اور نہیں بلکہ ساڈا لنگوٹیا یار چین ہی تھا، جس کے پاس چار ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کے زرمبادلہ ذخائر ہیں۔ چین نے یورپ اور افریقہ کے بعد امریکی منڈیوں میں بھی اپنی دھاک بٹھادی ہے. کہانی بیان کرنے والے بتاتے ہیں کہ معاملے نے ڈرامائی موڑ تب لیا جب فائیو جی ٹیکنالوجی پر چینی کمپنی  ہواوے کو سبقت حاصل ہوئی. امریکہ نے پہلا وار ہواوے کو  پابندیوں میں جکڑ  کر کیا۔ اور چوہدری کی طرح مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے معصوم اور کنواری  امریکی کمپنیوں کو بھی تڑی لگائی کہ خبردار  جو تم میں سے کسی نے اس چینی چھورے ہواوے کے ساتھ نین مٹکا کیا

.... اور اس کے بعد کرونا نامی چھوٹو بدمعاش کا چین پر حملہ آور ہونا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے.

اب آتے ہیں اس کے دوسرے پہلو پر.... اس سارے کھیل میں اکثر چوریوں کا کھرا بل گیٹس کے گھر جاتا رہا یے.. آخر ایسا کیوں ہے؟
کچھ نکات شاید اس کیوں کا جواب دینے میں ہماری مدد کریں
° بل گیٹس نے 2015 میں ایک مہلک وائرس کی پیشن گوئی کی تھی... اور یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ پیشن گوئی اس نے اس لیے نہیں کی کہ وہ کشف کے کسی درجے پر پہنچا ہوا بابا ہے بلکہ اس لیے کی ، کیونکہ وہ تیکنیکی مہارت کے لحاظ سے ایک پہنچا ہوا پِیر ہے.
° ٹیکنالوجی اور ویکسین کے الفاظ اگر ایک ساتھ لیے جائیں تو ہمارے ذہن میں سب سے پہلا آنے والا نام اسی موہے بل گیٹس ہی کا ہے، اور یہ محض اتفاق نہیں ہے.
اب انڈین ڈرامہ سی آئی ڈی کے کردار دیا کو یہ مت  کہیں کہ.. دَیا پتہ کرو اس گڑبڑ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے...
اور میں...؟
میں نہیں بتاؤں گا!

تو کہانی آگے بڑھتی ہے... وائرس چین پہنچایا گیا۔ ابتدا میں اس نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا لیکن چینی پہلے ہی ایسے وائرسوں  کی منجھی ٹھوک چکے تھے، میرا مطلب ہے تجربات کر رہے تھے، تو یہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے سنپولیے کے گھر میں سانپ چھوڑا گیا ہو۔ چپٹے ناک والوں نے پیں پاں پوں کرتے ہئے وائرس میں کچھ کیمیائی تبدیلیوں کا نیا جگاڑ مار کر اسے وہاں بھیج دیا جہاں سے آیا تھا۔

امریکہ نے وائرس کو کنٹرول میں رکھنے کی جو بائیولوجیکل ٹیکنالوجی تیار کی تھی وہ میوٹیٹ شدہ کورونا کے سامنے ناکارہ ثابت ہوئی۔ دونوں ملکوں کے انتہائی اعلیٰ فیصلہ ساز دماغ باہمی چپقلش کی اس صورت حال سے واقف ہیں لیکن دونوں خاموش ہیں تاکہ بدتر حالات سے فائدہ اٹھا سکیں۔

چین اس جنگ میں ابھی تک بنیا یعنی دو طرفہ فاتح رہا ہے.. یعنی میں تمہارے پاس آؤں گا تو مجھے کیا دو گے، اور تم میرے پاس آؤ گے تو میرے لیے کیا لاؤ گے



چینی کمپنیوں نے ساری دنیا کو وینٹی لیٹر، حفاظتی لباس اور ٹیسٹنگ کٹس فراہم کیں۔ ووہان میں جتنا نقصان ہوا تھا اس سے کہیں زیادہ کما لیا۔

دوسری طرف چینی ماہرین نے مشاورتی خدمات انجام دیں اور دنیا کو ایک ناقابل علاج بحران میں قیادت فراہم کی۔

چین نے کورونا سے نمٹنے کے بعد سٹاک مارکیٹ میں اپنے ہاں کام کرنے والی 23ہزار غیر ملکی کمپنیوں کے اکثریتی حصص خرید لیے۔ اب یہ غیر ملکی کمپنیاں اور ان کے معاملات چین کے لئے سربستہ راز نہیں رہ گئے۔ امریکہ نے طویل عرصے سے چین میں اپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو داخل کر رکھا ہے۔ حالات نے ان کمپنیوں کو چین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے

ان کمپنیوں کے حصص خریدنے کے بعد چین نے اگلی پیشرفت یورپ اور امریکہ میں کورونا کی وجہ سے خسارے کی شکار ہونے والی کمپنیوں کے حصص خریدنے کے حوالے سے کی۔ اٹلی کی مشہور زمانہ کارساز کمپنی فراری اور لیمبارڈنی کی خریداری کا معاملہ سامنے آیا تو وبا سے گھائل اٹالین حکومت کو احساس ہوا کہ یہ کمپنیاں تو اس کا قومی فخر اور پہچان ہیں۔ یہ بک گئیں تو اٹلی اپنے فخر سے محروم ہو جائے گا۔ حکومتی اقدامات کے باعث چین یہ سودا نہ کر سکا۔ یہاں تھوڑی سی چوک سے معاملہ طے ہوتے ہوتے رہ گیا....

دوسری جانب اس سارے کھیل کا دوسرا باخبر کھلاڑی امریکہ بھی اس بات پر برابر نظر رکھے ہوئے ہے کہ چینی سرمایہ کار، امریکہ کے موجودہ خراب مالی حالات کا فائدہ اٹھا کر ان کی اہم کمپنیاں نہ خرید لیں۔
باخبر حلقے اسی کہانی سے جڑا یہ خیال بھی پیش کرتے ہیں کہ  امریکہ فائیو جی ٹیکنالوجی کو دنیا کے ہر انسان کا ذاتی ڈیٹا جمع کرنے اور ان کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔  یوں سمجھ لیں کہ جیتے جاگتے انسانوں کو روبوٹ بنانے کی تیاریاں ہیں، اس وقت فائیو جی کا ٹاور پچیس کلو میٹر ایریا کور کرتا ہے۔ اب بس  اس کی گلی گلی تک رسائی کا انتظام طے پایا ہی چاہتا ہے. ماہرین کے بقول امریکہ ڈیٹا باکس اور انتہائی چھوٹے سائز کی چپ تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔
منصوبہ یہ ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے لئے حفاظتی ویکسین لائی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہر انسان کے لیے کورونا ویکسین ضروری قرار دے دی جائے گی

کورونا ویکسینیشن کے ذریعے ہمارے جسموں میں انسٹال کی گئی اس چپس سے ہمارا ڈیٹا ایئر پورٹس‘ بنک اور ہر جگہ سکیننگ کے دوران حاصل کیا جائے گا۔
اب اگر کوئی اٹھ کر کہے کہ  اگر وہ ویکسین نہ لے تو.... ؟
تو جناب : بین الاقوامی سفر‘ شناختی کارڈ‘ ملازمت وغیرہ کے لئے اگر یہ شرط لگا دی گئی تو سب کو ہاں کرتے ہی بنے گی، پھر بھی نہ مانے تو ریاستی طاقت، قانون اور ڈنڈے کے زور پر یہ سب کچھ کرایا جائے گا. یہ کوئی خلائی بات نہیں، ذہن پر تھوڑا زور دیجیے... یہ سب آپ کے تجربے میں آ چکا ہے...

تو جناب... یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے کورونا کا خوف بیچا جا رہا ہے۔ ٹام ہٹکس، میڈونا، بورس جانسن اور کئی مشہور لوگ بیمار ہوئے، سب بچ گئے۔ آخر کیوں.... اب تھوڑا سا سوچنے کا کام آپ خود سے بھی کر لیں

ہمارے ہر دل عزیز ڈجیٹل ملنگ بل گیٹس المعروف ویکسین والے بابا نے فارماسیوٹیکل شاہ کی درگاہ پر  دھمال کرتے ہوئے عالمِ سر مستی میں دیکھا ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکر بیگ کندھوں پر لٹکائے دروازے پر کھڑی کہہ رہی ہیں..... کرونا کے قطرے.... خود بھی پیئیں، بچوں کو بھی پلائیں...

تبصرے