ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہں جاتے...
مشتاق رسول
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے مفر ممکن نہیں، لیکن بعض موتیں ایسی ہوتی ہیں جو ذہنوں پر ایسے نقوش چھوڑ جاتی ہیں کہ مٹائے نہیں مٹتے... اور زخم ایسے دے جاتی ہیں کہ وقت کے مرہم کو بھی کارِ مسیحائی بھول جاتی ہے
جمعہ 22 مئی کو ماڈل کالونی طیارہ حادثے میں میجر شہریار بلوچ اہلیہ اور دو بچوں سمیت، لیفٹیننٹ میر بالاچ بگٹی، دو خوش قسمت مسافروں کے علاوہ تمام مسافر اور طیارے کا عملہ جامِ شہادت نوش کر گئے۔
جمعہ 22 مئی کو ماڈل کالونی طیارہ حادثے میں میجر شہریار بلوچ اہلیہ اور دو بچوں سمیت، لیفٹیننٹ میر بالاچ بگٹی، دو خوش قسمت مسافروں کے علاوہ تمام مسافر اور طیارے کا عملہ جامِ شہادت نوش کر گئے۔
جہاں بدقسمت طیارے کا یہ حادثہ کئی خاندانوں کو غمزدہ کر گیا، وہیں اس بد نصیب طیارے میں نوجوان لیفٹیننٹ میر بالاچ بگٹی کے پیاروں کو بھی داغِ مفارقت دے گیا۔ میر بالاچ جیسے نوجوان بیٹوں کا بجھڑ جانا والدین کے لیے قیامت کا وہ لمحہ ہے، جو آتا ہے اور عمر بھر کے لیے دلوں میں ٹھہر جاتا ہے۔ یاد کی کپکپاتی لو بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی۔
وہ جو آنکھ کے تارے ہوں، جن کے لیے دہلیز پر بچھی آنکھیں اگلے لمحے ان کو دیکھنے کے یقین سے سرشار ہوں اور خبر یہ آئے کہ.... اب وہ کبھی نہیں لوٹیں گے....
جانے والے تو چلے جاتے ہیں، لیکن پیچھے رہ جانے والوں کی زندگی اس ایک دردناک لمحے سے بندھ کر رہ جاتی ہے..
ایسے حادثے میڈیا کے لیے تو محض سنسنی خیز خبر ہوتے ہیں، لیکن ان حادثوں سے وابستہ کچھ لوگ ایسے حادثوں سے ٹوٹ کر رہ جاتے ہیں.
ماڈل کالونی طیارہ حادثے میں لیفٹیننٹ میر بالاچ، میجر شہر یار بلوچ اور دیگر ایسے نوجوانوں کی سفاک موت کی خبر نے کئی ایسے والدین کے زخم تازہ کردیے ہونگے، جن کے جواں بیٹے، خدا کی طرف سے دی ہوئی خوبیوں سے مالامال تھے۔، لیکن موت نے مہلت انہیں بہت کم دی.. آفریں، خراجِ تحسین اور صد ہا ھزار محبتوں کے سزاوار ہیں ایسے والدین کہ جو اپنے بیٹوں کی بے وقت موت کو اپنے ﷲ کی طرف سے آزماٸش سمجھ کر صبر کا دامن تھام لیتے ہیں۔
میر بالاچ بگٹی بلوچ جیسے نوجوان نے تو ابھی زندگی جینا شروع ہی کی تھی...
بقول شاعر
بچےتو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے،
ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہں جاتے...
مگر عمر کے اس لاابالی پن کے دور میں بھی میر بالاچ بگٹی جیسے نوجوان قوم اور وطن کی خدمت کی خاطر پاک آرمی میں بطور لیفٹیننٹ اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔
بقول شاعر
بچےتو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے،
ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہں جاتے...
مگر عمر کے اس لاابالی پن کے دور میں بھی میر بالاچ بگٹی جیسے نوجوان قوم اور وطن کی خدمت کی خاطر پاک آرمی میں بطور لیفٹیننٹ اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔
کیا کیا خواب ہونگے میر بالاچ کے دل میں، میر بالاچ کے والدین کے دل میں.... ان خوابوں کو تو بس وہ والدین ہی جان پائیں گے، جن کے بیٹے بھری جوانی میں اس دنیا سے رخصت ہوئے.. یہ خواب ایسے والدین کے دل میں ایک ریشمی رومال میں سجاۓ رکھے محفوظ رکھے یوتے ہیں.... جب جب میر بالاچ جیسے نوجوان اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، تو یہ والدین اس ریشمی رومال کو کھول کر ان ادھورے خوابوں پر اپنے آنسو بہاتے ہوۓ کہتے ہیں:
جاتے ہوئے کہتے ہو 'قیامت کو ملیں گے'
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور..
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور..
ایسے بیٹوں کی موت پر
صرف جنازے نہیں اٹھتے،
سچ پوچھیے تو
زندگی سے ایمان بھی اٹھ جاتا ہے..
صرف جنازے نہیں اٹھتے،
سچ پوچھیے تو
زندگی سے ایمان بھی اٹھ جاتا ہے..
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں